Friday, March 24, 2023
HomeArticles & Analysisپاکستان کی سیاست تاریخ کے آئینے میں اور عمران خان کا مستقبل

پاکستان کی سیاست تاریخ کے آئینے میں اور عمران خان کا مستقبل

شاید نوجوانوں نے یہ باتیں ابھی تک نہ پڑھی ہوں کہ لگ بھگ چالیس سال پہلے ہم مستبِد طبقے کو تین کرداروں کی مثلث کہا کرتے تھے۔ جاگیردار، سرمایہ دار اور مذہبی پیشوا۔ دراصل برصغیر میں اِن تین کرداروں کی نشاندہی علامہ اقبال نے سب سے پہلے کی تھی۔ علامہ اقبال نے قرانِ کریم کے حوالے سے ان تین کرداروں کو علامتی نام بھی دیے تھے یعنی فرعون، قارون اور ہامان۔ پھر بعد میں غلام احمد پرویز نے ان تین علامتی ناموں کو اپنے ’’مسلم اشتراکیت‘‘ کے نظریے میں بہت زیادہ اور بار بار استعمال کیا، جس سے ہمارے عہد کے نوجوانوں کو ان کرداروں سے خوب خوب واقفیت ہوگئی تھی۔ ہوسکتاہے میرے ہم عمروں میں اور لوگوں کو بھی یہ بات یاد ہو۔

پرویز صاحب نے فرعون، قارون اور ہامان سے بننے والی مثلث کے خلاف واحد عصابردار کے طورپر موسیٰ علیہ السلام کے کردار کو بہت نمایاں کرکے پیش کیاہے۔ جو لوگ پرویز صاحب کو نہیں پڑھتے رہے اور صرف اشتراکی مصنفین کو پڑھتے رہے ہیں، وہ سبطِ حسن کی کتابوں کے حوالے سے اِن تین کرداروں سے واقف ہیں۔ لیکن پرویز صاحب کی اشتراکیت چونکہ اسلامائزڈ تھی، اس لیے پرویز صاحب آیات، احادیث اور تاریخ سے ان کرداروں کی نشاندہی کرتے اور ہمیشہ موسیٰ علیہ السلام کا کردار ان کے مقابلے میں رکھتے۔ سبطِ حسن نے بھی اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’موسیٰ سے مارکس تک‘‘ میں یہی ترتیب روا رکھی۔

وہ زمانہ ہی ایسا تھا۔ پاکستان میں اشتراکیت ایک فیشن کے طورپر رائج تھی۔ فیض اور فراز اور احمد ندیم قاسمی اور اِسی طرح کے دیگر بہت سے بڑے بڑے نام اس زمانے میں مزاحمتی ادب لکھا کرتے تھے۔ آج بھی ادب کا طالب علم جانتاہے کہ مزاحمتی ادب کی کیا شان ہے۔ چونکہ وہ زمانہ ہی اشتراکیت کے فیشن کا تھا اس لیے پرویز صاحب کی طرح بہت سے دیگر مسلم مفکرین بھی اشتراکیت کو اسلامائز کرکے پیش کرنے میں مصروف تھے۔ اس طرح کی سوچ کی بنیاد اگرچہ مولانا عبیداللہ سندھی نے رکھی تھی لیکن سچ یہ ہے کہ یہ بھی کوئی کامل اور معقول سوچ نہ تھی۔ مولانا مودودی نے اس سیلِ بے مہار کے راستے میں بند باندھنے کی بہت کامیاب کوشش کی۔ لیکن بصد افسوس کہ ضیالحق نے اسی سوچ کو جو کہ مولانا مودودی نے فی الاصل مسلم اشتراکیت کے سامنے بندھ باندھنے کے لیے متعارف کروائی تھی، اپنی آمریت کے حق میں استعمال کیا اور پاکستان کا ستیاناس کردیا۔

مولانا مودودی کے ثمرات کا نتیجہ بھی تلخ پھل نکلا اور مسلم اشتراکیت کے داعیوں کے ثمرات کا نتیجہ بھی تلخ پھل ہی نکلا۔ چنانچہ آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دونوں تحریکیں اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔

چنانچہ ہمیں اپنی فکری راہ سنوارنے کی کہانی پھر وہیں سے شروع کرنی پڑے گی یعنی فرعون، قارون اور ہامان کی شناخت سے۔ مسلم اشتراکیت اور مودودیت سے جو افکار ہم نے سیکھے، وہ اب تک ہمارے کسی کام نہیں آئے۔ غلط استعمال کیے گئے اور ہم نے مسلسل نقصان اُٹھایا۔ جن تین کرداروں کا قرانِ کریم نے نہایت واضح لیکن علامتی ذکر کیا تھا اور اقبال نے ان علامتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں علی الترتیب جاگیردار(فرعون)، سرمایہ دار(قارُون) اور مذہبی پیشوا (ہامان) کے طورپر متعارف کروایا، ہمیں اپنی فکری آراستگی آج بھی انہی کی شناخت سے شروع کرنا ہوگی۔

یہ تین کردار ہیں۔ یہ قرانِ کریم نے متعارف کروائے ہیں۔ قران کی ترتیب میں سب سے جابر فرعون ہے، جبکہ قارون اور ہامان اس کے ساتھی ہیں۔ یہ ایک مثلث کی شکل ہے۔ یہ عام انسانوں کا استحصال کرنے والے کردار ہیں۔ فرعون جاگیردار ہونے کی وجہ سے قاہروجابر اور طاقتورہے، قارون اسے سرمایہ فراہم کرتاہے جبکہ ہامان جو کہ مذہبی پیشوا ہے وہ لوگوں کو یہ بتاتاہے کہ فرعون تمہارا خدا ہے اور قارون تمہارا ’’اَن داتا‘‘ یعنی رازق ہے۔ لوگ ہامان کی بات اس لیے مانتے ہیں کیونکہ وہ کاہن یعنی مذہبی پیشوا ہے۔ فرعون اور قارون تو لوگوں کو کان سے پکڑ کر ورغلاتے ہیں جبکہ ہامان کے پاس لوگ ازخود ورغلینے کے لیے جاتے ہیں اور اپنا کان اپنے ہاتھوں سے پکڑ کراسے کہتے ہیں، آ مولوی مجھے ورغلا!

دورِ حاضر میں ان کرداروں کی ترتیبِ طاقت میں بہت فرق آیا ہے۔ مذہبی پیشوا کی جگہ عملاً میڈیا نے لے لی ہے۔ خدا بھلا کرے نیوٹن کا اس کی میکانیات سے مشینیں آئیں تو مزارعین نے زمین پر ہل چلانا چھوڑ کر شہروں کا رخ کیا۔ مِلیں آباد ہوئیں اور جاگیردار سے سرمایہ دار زیادہ مضبوط ہونے لگا۔ تب بہت سے جاگیرداروں نے ازخود اپنا منصب تبدیل کرکے خود کو سرمایہ داربنایا اور یوں قارون کی حیثیت فرعون اور ہامان سے زیادہ بڑی ہوگئی۔

علامتی طورپر تو یہ کہانی تھی ان کرداروں کی۔ لیکن گزشتہ شب کے واقعات کے بعد مجھے ایک بار پھر اقبال، سبطے بھائی، پرویز اور جلال پوری کےعلاوہ فیض و فراز بری طرح یاد آئے۔ جب بلاول بار بار ’’میرا نانا میرا نانا‘‘ کہہ رہا تھا اور مولانا فضل الرحمان کا بیٹا اسد محمود بار بار ’’میرا دادا میرا دادا‘‘ کی رٹ لگائے ہوئے تھے، مجھے یکایک ایسے لگا جیسے آج بھی یہ مثلث ویسی کی ویسی موجود ہے۔ زرداری جاگیردار ہے، شہبازشریف سرمایہ دار ہے اور مولانا فضل الرحمان مذہبی پیشوا ہے۔ یہ تین لوگ علامتیں نہیں ہیں، حقیقی کردار ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان سے بڑے کردار بھی دنیا میں موجود ہیں، جن کی یہاں یہ لوگ نمائندگی کرتے ہیں۔

بلاول اور اسد محمود نے جب مسلسل اور بار بار ’’میرانانا میرا دادا، میرا نانا میرا دادا ‘‘ کِیا تو بے اختیار میرے لبوں پر فارسی کی مشہور ضرب المثل گردش کرنے لگی، ’’پدرم سلطان بُود‘‘ یعنی میرا باپ بادشاہ تھا۔

اور یقین جانیے اس مثلث کی پہچان ہوتے ہی مجھے پہلی بار عمران خان کی اہمیت کا شدت سے احساس ہوا۔ لیکن میں دُکھی نہ ہوا بلکہ تھوڑا سا خوش ہوگیا۔ یعنی اگر یہ لوگ عمران کو مروا نہ دیں تو مجھے بڑی تسلی ہے کہ عمران خان نے جاتے جاتے اپنے عصا سے جو ضرب کلیم لگادی ہے یہ اس کی چوٹ اور زخم سے بچ نہیں پائیں گے۔ زیادہ بڑی طاقت کے ساتھ پنگا لینے کی وجہ سے ممکن ہے عمران خود حکومت تو کبھی نہ بنا سکے لیکن آئندہ سیاست میں وہ جس قسم کا لیڈر بننے جارہاہے، عین ممکن ہے کہ وہ ہمیں سچ مچ سامراج نہ سہی تو ایٹ لِیسٹ مغرب کی غلامی سے نجات دلانے کا، کسی اور طرح سے سبب بن سکے۔ عمران خان کو مروا نہ دیا گیا تو وہ مستقبل میں صرف پاکستان ہی نہیں، مسلم اُمّہ اور خطے (مشرق بعید اور جنوبی ایشیا) کا قائدِ حرّیت مشہور ہونے جارہاہے۔ یہ بات لکھ لیں۔ مروا دینے کا ڈر مجھے اس لیے ہے کہ میرے سامنے ترتیب کے ساتھ ان لیڈروں کا حال ہے جنہوں نے عمران سےپہلے ایسی جرأت کا مظاہرہ کیا تھا۔ یقیناً قارئین کو بھی ان کا حال معلوم ہے۔ ان میں قذافی کا انجام جتنا خوفناک ہوا، اس سے سامراج کی غیرمبدل اور بے پناہ طاقت کا بخوبی اندازہ ہوجاتاہے۔

ادریس آزاد

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments